ہاتھ میں پھول بغل میں خنجر رکھتے ہیں
کچھ لوگ یہاں ایسا بھی ہُنر رکھتے ہیں
بظاہر ایک قطرہ بھی نظر نہیں آتا مگر
آنکھ میں اشکوں کا سمندر رکھتے ہیں
جن میں ہوتا نہیں ھے پیار کا جزبہ
وہ سینے میں دل نہیں پتھر رکھتے ہیں
وہ آخر فصلِ محبت اُگائیں گے کس طرح
جو اپنے دل کی زمیں کو بنجر رکھتے ہیں
ظالموں کے خلاف لکھنے کے لئے اے امر
ہم اُنگلیوں کو لہو میں تر رکھتے ہیں