ہاتھوں سے اُس کے نام کی لکیریں مٹ گئیں
تقدیر تھیں جو میری ٗ وہی تقدیریں مٹ گئیں
کہاں کے اٹوٹ بندھن جو کاغذوں سے جڑتے ہیں
سبھی کچھ مٹ گیا جب تحریریں مٹ گئیں
جس نے کیا نہ کبھی پرے اپنے پیار سے مجھے
مجھ پر سے اُس پیار کی زنجیریں مٹ گئیں
پایا اُس خواب کو اِک عرصۂ حیات تلک
کُھلی جیسے ہی آنکھ ٗ تعبیریں مٹ گئیں
سَو سوچی تھیں ٗ نہ کھوئیں گے اُسے ہم کبھی
وقت نے چھین لیا اُسے ٗ تدبیریں مٹ گئیں
اللہ رے! میری محبت کے ہر موڑ پہ شکوے
جب ٹوٹ گئے سلسلے ٗ سبھی تقصیریں مٹ گئیں