ہاتھوں میں خنجر لیے رات پھر بھڑ رہی ہیں میری طرف
یوں تنہا ہمیں دیکھنے کا ارمان کس کا تھا
انتظار شمع جل جل کر کہیں راکھ نہ ہو جائے
سوچتی ہوں آنے کا عہدو پمیان کس کا تھا
تیرے لہجے میں بدلہ پن کیوں محسوس ہوتا ہیں
میرے ہوتے ہوئے بھی تیری آنکھوں میں خمار کس کا تھا
کیسا جنوں لیے پھرتا ہیں مجھے در بے در زمانے میں
اختمام سفر پے ملنا انعام کس کا تھا
مددتوں کی پیاس بھجانے کے لیے دیکھا تھا
رخ موڑ کر وہ چل دیے ۔ غیروں سا انداز کس کا تھا
دیوار پے گھڑی کو دیکھ کر کیا لگاؤ گے وقت کا اندازہ
جب آیا ُبرا وقت تو معیسر نا ساتھ کس کا تھا