ہار گئی میں - پر سنا ہے
قدرت ہارا نہیں کرتی
پل نہ لگائے - اور تقدریں بدل جایئں
خدا کی ذات دنیا سے ڈرا نہیں کرتی
معجزے تو آج بھی ہوتے ہیں
پھر دنیا دل توڑنے سے ڈرا کیوں نہیں کرتی
چھوڑ کے جانے والے لوٹ بھی آتے ہیں
دعایئں کبھی کسی کو رسوا نہیں کرتی
مٹی کے بت ہیں کیا یقین کریں ان پر
جبکہ مٹی تو اک جگہ پے جماء نہیں کرتی
اپنی ہی خطایئں بہت تھی ، کیا شکوہ گلہ کرتے
راضی نا ہو - خدا تو استغفار سے توبہ ملا نہیں کرتی
دامن پھلا کر بیٹھ گیا تہجد کے وقت کوئی
سمجھ دار تھا کہ ایسی خیرات کہیں ملا نہیں کرتی