حاکم شہر بتا!
وقت کے شکنجوں نے
خواہشوں کے پھولوں کو
نوچ نوچ توڑا ہے
کیا یہ ظلم تھوڑا ہے؟
درد کے زنجیروں نے
آرزو کے جیون کو
مقبروں میں ڈھالا ہے
ظلمتوں کے ڈیرے ہیں
لوگ سب لتیرے ہیں
موت روٹھ بیٹھی ہے
ذات ریزہ ریزہ ہے
تار تار آنچل ہے
درد درد جیون ہے
شبنمی سی پلکیں ہیں
قرب ہے نہ دوری ہے
زندگی ادھوری ہے
اب یقین آیا ہے
کہ
موت بھی ضروری ہے
ہاں! موت بھی ضروری ہے۔