دو دن دور دنیا سے ، ایک ویران کمرے میں بند پڑا ہوں
کہ جس کی دیواریں میرے زخموں سے بین کر رہی ہیں
گھڑی کی ٹک ٹک، ٹک ٹک، تیرا نام پکار رہی ہیں
وینز خون کی بجائے تیری یادیں دل تک پہنچا رہی ہیں
کہ ہوا سے لہرتے پتوں کی کریچ، ہجر کے غم کو تازہ کر رہی ہے
بادل، اور آنسو کی سپیڈ کا اندازہ نیوٹن باخوبی لگا سکتا ہے
موبائل بھی افسردہ کونے میں پڑا تیرے میسج کا انتظار کر رہا ہے
کمرے کی دیورایں تیرے آنے کی طلب اور انتظارِ اجل سے افسردہ ہیں
ماں بند کمرے کی دیواروں سے آتی زخموں کی بین سن رہی ہیں
اچانک انتظارِ عزرائیل ختم، اور ایک بلند آواز گونجتی ہے انّ للہ و انا الیہ راجعون