مژدہ کوئی سنا گیا ہجر طویل کا
تحفہ عنایت کر گیا ہجر طویل کا
ہجر کا اک لمحہ اک سال کی طرح
اور سال تو پھر سال ہے ہجر طویل کا
میرے رفیق کو رفیق خوش گماں ملے
کرتے نہ تھے مذکور بھی ہجر طویل کا
ہم دھول نہیں پھر بھی ہم کو اڑا گیا
کیا زور کا طوفان تھا ہجر طویل کا
جو وصل کی سوغات سے محروم رہ گئے
ان کو ہی داغ مل رہا ہجر طویل کا
دن رات صبح شام اسی سوچ میں رہوں
نازک ہے دل اور داغ یہ ہجر طویل کا
عظمیٰ کوئی تدبیر تو ایجاد کیجئیے
کوئی حل تو ہونا چاہیئے ہجر طویل کا