ہجر و فراق اور تیرا باب ہی سہی
تُو مل نہ سکا تیرے خواب ہی سہی
تو نے مجھے بھلا کر اپنا مان رکھ لیا
میں تیرے ہجر میں یار خراب ہی سہی
دیدارِ قربت نہ سہی خُمارِ فرقت ہی سہی
تیری آنکھیں نہ سہی شراب ہی سہی
اے امیدِ مُنتظر کیوں ہو رائیگاں ایک عُمر
اقرار نہ سہی تو کوئی جواب ہی سہی
اس سیاہ نصیب میں کچھ نہ تھا
زخم کچھ یادیں کچھ خواب ہی سہی
میں کسی کا کھویا ہوا اثاثہ تھا احسن
جزہِ گُفتار نہ سہی کسی آنکھ کی آب ہی سہی