ہجر کی وحشتیں اگر آنکھوں میں اُتر جائیگی
تو خوابیں حسرت لیئے آنکھوں سے کدھر جائیگی
جتنی خواہش کو جِلاَ بخشی ہے تُو نے دل میں
دورانِ ہجر تڑپتے ہوئے مر جائیگی
پِروئ ہیں تیری ذات میں خوشیاں اپنی
تُو جو بچھڑے گا تو پھر یہ بھی بکھر جائیگی
تم مجھے بھول بھی جاؤ مگر میری یادیں
تمھارے خیالوں کے محور میں ٹھر جائیگی
آؤ ساتھ چلتے ہیں جہاں تک بھی اب ممکن ہے
پھر الوداع کہہ کر یہ راہیں بچھڑ جائیگی
اُتر جانے دو اپنا عکس میری آنکھوں میں
یہ تمھیں ڈھوڈنے اب خواب نگر جائیگی
رقص کرتی تھی اِک آواز کی سرگم جن میں
وہ سماعتیں خاموشی کی گُونج سے ڈر جائیگی
تمھارے بعد ایک رسوائ ہاتھ تھامے گی
پھر اُدھر جاؤنگا میں بھی وہ جدھر جائیگی
وہ جو خدشات تھے آغازِ سفر سے مجھکو
اب وہ شاید حقیقت میں اُبھر جائیگی