ہر آئنے میں ترے خد و خال آتے ہیں
عجیب رنج ترے آشنا اٹھاتے ہیں
تمام عمر کسے کون یاد رکھتا ہے
یہ جانتے ہیں مگر حوصلہ بڑھاتے ہیں
وصال و ہجر کی سب تہمتیں اسی تک تھیں
اب ایسے خواب بھی کب دیکھنے میں آتے ہیں
یہ لہر لہر کسے ڈھونڈتی ہے موج ہوا
یہ ریگزار کسے آئنہ دکھاتے ہیں
شکست جاں کو ابھی اعتبار جاں ہے بہت
سراب دشت میں دریا کے خواب آتے ہیں
اگر ملے ہیں وہ لمحے تو ان کی قدر کرو
محبتوں کے یہ موسم گزر بھی جاتے ہیں
جو مل گئے ہیں انہیں بھولنا ضروری ہے
ملے نہیں ہیں جو چہرے وہ یاد آتے ہیں
گزر رہی ہے یوں ہی شام زندگی ساجدؔ
کہ اک چراغ جلاتے ہیں اک بجھاتے ہیں