ہر امتحان میں ناکامی ہے شاملِ نصیب شاید
بنی ہے اپنی قسمت ہی ایسی عجیب شاید
اس کو دیکھ کے ہم بھی نکلے تھے بیچنے دل
ہمیں دیکھا سرِبازار تو ہو گیا غریب شاید
آنکھوں پہ اس لیے گِرا رکھی ہیں پلکیں
زمانہ دیکھ کے تجھے ہو جائے گا رقیب شاید
ہو رہے ہیں دور تجھ سے یہ سوچ کے
کر دیں گئے فاصلے ہمیں قریب شاید
بس اک بار گذر جاؤ جوہر کے سامنے سے
پا جائے گا سکون دلِ حبیب شاید