ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے
محبتوں کی یہ تقدیر تھوڑی ہوتی ہے
کبھی کبھی تو جدا بے سبب بھی ہوتے ہیں
سدا زمانے کی تقصیر تھوڑی ہوتی ہے
پلک پہ ٹھہرے ہوئے اشک سے کہا میں نے
ہر ایک درد کی تشہیر تھوڑی ہوتی ہے
سفر یہ کرتے ہیں اک دل سے دوسرے دل تک
دکھوں کے پاؤں میں زنجیر تھوڑی ہوتی ہے
دعا کو ہاتھ اٹھاؤ تو دھیان میں رکھنا
ہر ایک لفظ میں تاثیر تھوڑی ہوتی ہے