خاموشی کا دامن تھام کر کتنا صبر کر لیا میں نے
ُاس نے کہا نہیں پھر بھی ُاس کا انتظار کر لیا میں نے
یوں تو نہیں معلوم قبولیت کب ہو گئی لیکن
ہر بار دعا مانگ کر اعتبار کر لیا میں نے
اس دنیا سے نہیں اب خدا سے ہے میری گفتگو
لب سی کر ُاس کا اصرار کر لیا میں نے
اب تو بس بہاروں کی آمد ہونی ہیں
مشکل وقت کو مشکل سے بسر کر لیا میں نے
نہیں ہے کوئی حال سننے والا تو کیا ہوا
آج خدا کو جی بھر کے ہم کنار کر لیا میں نے
ُاسے لوٹ کر تو آنا ہے اک دن میرے ہی پاس
پر آج ُاسے روکنے سے انکار کر لیا میں نے
میری شاعری جس نے آج تک نہیں پڑھی لکی
ہاں ُاسی شخص سے پیار کر لیا میں نے