ہر دم عذاب سا لگتا ہے
یہ عشق عتاب سا لگتا ہے
گر آنکھیں پڑھنے کا ہنر رکھتی ہوں
ہر شخص اک کتاب سا لگتا ہے
کیا لکھوں میں توصیف میں
اس کا چہرہ مہتاب سا لگتا ہے
خود بھی زمانے کے مقلد ہیں
زمانہ ہی مگر خراب سا لگتا ہے
دکھ نہیں ہوتا بچھڑنے کا
وہ ہمیں دستیاب سا لگتا ہے
مجھ اندھے کو اندھیرے میں
دیا بھی آفتاب سا لگتا ہے
کوئی سمجھتا نہیں محبت کو
اپنا خانہ خراب سا لگتا ہے
اک اک دن مجھے یہاں ساحل
اب روزِ حساب سا لگتا ہے