ہر دن کا یہ عذاب سہا جائے گا نہ اب
یوں شہر بے مہر میں رہا جائے گا نہ اب
پھولوں کو جس کے باغباں خود روندتا رہے
ایسا چمن آباد کیا جائے گا نہ اب
خلقت کو لوٹتا ہے امیر شہر یہاں
ہم سے خراج خون دیا جائے گا نہ اب
اپنے لہو سے لکھیں گے تقدیر اپنی ہم
یہ ہاتھ ان کے ہاتھ دیا جائے گا نہ اب
سر کو جھکا دیں پوچھے بنا وجہ قتل کیوں
کہتے ہو تم جو ہم سے کیا جائے گا نہ اب
تم سے وفا نبھائیں گے ہر حال میں امیر
یہ عہد استوار دیا جائے گا نہ اب
وامق وہ جن کے نام سے دنیا دہلتی ہے
سن پائیں گے وہ ایک بھی حرف دعا نہ اب