بچھڑ کے اُسے ذرا فرق نہیں وہ شاد نظر آتا ہے
دل میں کتنا خوش ہے ہر راز نظر آتا ہے
اگر وہ رکھتے ہیں جینے کا د م میرے بنا تو کیا
میرے بھی دل کی دھڑکن میں میں وہ احساس نظر آتا ہے
آج تو وہ جاتے ہیں غیروں کی محفل میں شوق سے
آنے والے دنوں میں مجھے اُس پے اک عذاب نظر آتا ہے
یہ کالی رات کا اندھیرا کچھ لمہوں کا مہمان ہے
کہ مجھے دن کا نکلتا حسین آفتاب نظر آتا ہے
نہ زندگی ڈوبے گی ہماری بھی آنسو ؤں کے ساگر میں
مجھے خوشیوں کے نئے ساحل کا کنا را پاس نظر آتا ہے
اک آخری پیغام لکھ دے اُس بے وفا کو نہا ل
تجھے بھلا دے گے ہم بآسانی مجھے اک طریقہ خاص نظر آتا ہے