ہر سمت انتشار ہے ہر سمت بے دلی
بستی یہ ایسی ہو گی نہ سوچا تھا یوں کبھی
خدشوں میں لپٹے ذہن تو فکروں میں لپٹے چہرے
ہر سینہ فگار میں اک آگ ہے بھری
ہر سو دکھائی دیتے ہیں غارت گری کے منظر
بجھنے لگی ہے آنکھ یہ حیرت سے دیکھتی
پھٹتے ہیں کان خامشی کی گونج سے یہاں
سہما ہے بے زبان ہے ہر ایک آدمی
ہر سمت آگ بھوک کی دہکی ہوئی یہاں
خلقت شہر کی ساری جہنم میں جل رہی
دریا تمام نہریں سبھی خشک ہو گئیں
چشمے اگلتی مٹی ہی بے فیض ہو گئی
وامق دعا کا دور ہے سجدوں کی ساعتیں
شاید ہی سمجھے قوم یہ مرتی ہوئی میری