ہر غزل اس کے نام ہے کیونکر
دل بھی اس کا غلام ہے کیونکر
گر اسے مجھ سے سخت نفرت ہے
اس کا آیا سلام ہے کیونکر
وہ زمانے کا بےوفا جو ہے
دل پھر اس کا غلام ہے کیونکر
بے وفائ کے زخم مل جانا
چاہتوں کا انعام ہے کیونکر
ایک پاگل سی لڑکی نیندوں میں
لیتی میرا ہی نام ہے کیونکر
تو شرابی نہیں تو پھر باقر
تیرے ہاتھوں میں جام ہے کیونکر