ہر غم خوشی کا ہی کوئی منظر لگا مجھے
غم اور میں الگ نہیں اکثر لگا مجھے
ہیں کِس قدر فضاؤں میں بے اعتباریاں
پھینکا کِسی نے پھوُل تو پتھر لگا مجھے
موجیں بہا کے جب مجھے ساحل پہ لے گئیں
اُس وقت ماں کی گود سمندر لگا مجھے
جب بھی روایتوں سے بغاوت کِسی نے کی
خود اپنے آپ سے بھی بہت ڈر لگا مجھے
جب سے نکل پڑی ہوں سکوں کی تلاش میں
میری طرح ہر ایک ہی بے گھر لگا مجھے
رفعت سبھی کی صوُرتیں ویران سی لگیں
ہر شخص میرے خواب سا بنجر لگا مجھے