ہر گام زندگی میں عجب سانحے ہوئے
اپنے پرائے جانچنے کے تجربے ہوئے
اک ڈائری پرانی مرے ہاتھ کیا لگی
یادوں کے زرد پیڑ یکایک ہرے ہوئے
اے دل سنبھال ضبط کہ پشتے لرز اٹھے
انکھوں سے بہہ نہ جائیں یہ دریا رکے ہوئے
آنکھوں میں دیکھ شہر خموشاں کا سا سکوت
پلکوں پہ دیکھ غم کے فسانے لکھے ہوئے
بلقیسؔ اک چراغ سر راہ کیا رکھا
بستی کے ہر مکان ہی میں تبصرے ہوئے