ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پاس ہی جب کچھ نہیں، پھر کیا ہے جو کھونے کو ہے
داغ ہےترک تعلق کا مرے دامن پہ جو
رغبتوں کا تیز دھارا ،آخرش دھونے کو ہے
اے چراغ آرزو، مدھم کرو کچھ اپنی لو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
حشر کے ہنگامہ ہائے سُرخ میں سرسبز ہو
ہے عجب اک شخص جو، اپنا بدن بونے کو ہے
کیا ہے اظہر سے تعلق؟ دے رہی ہے اُس کا ساتھ
اے شب غم، کیوں ہے لرزاں، تو بھی کیارونے کو ہے