وہ سال زمانے بیت گئے
ہم نئے بہانے سیکھ گئے
اب کیا موسم اور کیا پکوان
یہ ساز پرانے بھیگ گئے
اب تم ہو بس کل کا قصہ
وہ حسار پرانے ٹوٹ گئے
جو تم نے دیے تھے غم بھی
وہ غبار پرانے چھوٹ گئے
اب دکھ کی باتیں تم رکھو
وہ خواب ہمارے ٹوٹ گئے
ہم نئے خواب اب دیکھیں گے
تھے جھوٹ جو سارے چھوٹ گئے
زندگی کو آگے بڑھنا ہے
اب غم جو سارے بھول گئے
کوئی نیا پھول بھی کھلنا ہے
وہ باغ پرانے سوکھ گئے
اب ہریالی ہے بس ہریالی
وہ جھڑے ہوئے تو گھوم گئے
نایاب سنو ساز موسم کے
سب راگ ہوا میں جھوم گئے