ہزار موسم بدل چکے ہیں
کئی رتیں آکے چلی گئی ہیں
میری اداسی
جو تھی اب تلک وہ
وہیں کی وہیں
وہیں کی وہیں ہے
ُخوشی کا وہ موسم
کہیں نہ کہیں
ہے منتظر کب کا
کہ آنے کا اس کے
شہرہ بہت ہے
کوئی دل
دھڑک دھڑک کے کہہ رہا ہے
کہ انتظار میں تیرے
کوئی تڑپ کے رہ گیا ہے
کہ آنے سے جس کے
کلی کھل ُاٹھے
چمن جھوم ُجھوم جائے
ُاداس دل کی دھڑکنوں میں
قرار بھر جائے
ہوا میں ترنم کی لے ہو
اور زندگی بھر کا
ہجوم غم بھی مُسکرائے
کہ
میرے آنگن میں جب
میرے نصیب کی وہ لڑکی
قدم رنجہ ہو جائے