پردہ ہستی موہوم اٹھانے لگا ہوں
بر سر بزم ترے سامنے آنے لگا ہوں
آنے والا ہوں تیری خلد میں قیدی بن کر
قید دنیا سے میں اب جان چھڑانے لگا ہوں
اب تو میں سانس بھی گن گن کے لیا کرتا ہوں
یہ امانت ہیں تیری ان کو بچانے لگا ہوں
شہر خوباں میں میرا داخلہ ممنوع ہوا
خیمہ اس بستی سے باہر میں لگانے لگا ہوں
مجھ سے چھینا ہے اسی ہستی خود غرض نے یار
سو میں اس ہست کو اب نیست بنانے لگا ہوں
دستگیروں کے پسر تم ہو تمہارے در پر
سائل دید ہوں، آواز لگانے لگا ہوں