صُبح کے نُور سے بھیِگے ہوئے کھیتوں میں کسان
ہل چلاتے ہیں تو فن کار نظر آتے ہیں
خیرات کے لیے مرا دامن بنا نہیں
دامن دریدہ ہوں کہ مَیں دامن کشاں رہا
شاخِ گُل آبِ رواں پر جُھک کر
کِسی پتّی کا پتہ پوُچھتی ہے
یاد آئے نہ خال و خد اسی کے
جس شخص کو بے حساب دیکھا
مَیں تمھیں اپنا شاہکار کہوں
میری رعنائیِ گماں دیکھو