ہم الجھ رہے تھے لوگ سلجھ رہے تھے

Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Huston

 ہم الجھ رہے تھے لوگ سلجھ رہے تھے
الجھنیں تو جا بجا ہم بوسیدہ ڈگر پے چل رہے تھے

یوں دور پہ دور چل رہے تھے جام چھلک رہے تھے
یوں کشمکش میں مے کے پیالے الٹ رہے تھے

جانے کن راہوں کی جانب ہم پلٹ رہے تھے
الجھتے الجھتے ہم خود سے بچھڑ رہے تھے

تحقیق کر رہے تھے لوگ نئ کہاوتیں لکھ رہے تھے
جدید دور میں بھی ہم افسانوی کہانیاں پڑھ رہے تھے

Rate it:
Views: 2261
07 Jun, 2021
More Life Poetry