ہم اور کانچ کا گلدان

Poet: Shaikh Khalid Zahid By: Shaikh Khalid Zahid, Karachi

کمرے کی میز پررکھا ہوا
کانچ کا اک خوبصورت گلدان
ادھ کھلی کھڑکی سے آنے والے
ہواکے تیز جھونکے کی زد میں آکر
گلدان کا میز پر سے گرنا
ایک چھنناکے کی آواز کا ابھرنا
کانچ کا فرش پر بکھرنا
ان سنی، کسی کی آہ کا بھرنا
پاس ہی کھڑی ذی روح کا چیخنا
اس شور شرابے کے درمیاں
گلدان کا ٹوٹنا اور سمٹنا
(جیسے کفن دفن جنازے کا اٹھنا)
اور پھر خاموشیوں میں سسکیوں کا ابھرنا
پھر سب ویسا ہی جیسا گلدان کے ہوتے ہوئے تھا
سرگوشیوں سے آہستہ آہستہ آوازوں کا ابھرنا
یوں سمجھ لیجئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا
بس میز خالی تھی جوکہ چارپائی جیسی تھی
وہ کھڑکی کس نے ادھ کھلی چھوڑی تھی
جیسے میز کی آنکھیں ہوں
اور وہ ہوا کے جھونکے سے سوالی ہوں
وہ جسے ابتک بہت سنبھال رکھا تھا
وہ گلدان اب میز پر نہیں تھا
جیسے کوئی ذی روح منوں مٹی تلے دبا دیا گیا ہو
کبھی نا جاگنے کیلئے، کبھی نا کچھ کہنے کیلئے
خاموشی سے سوگیا ہو

Rate it:
Views: 566
27 Jun, 2018
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL