کرم پر کرم کرنے والے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
چلائی نہیں مشنری بجلیوں پر
بنایا ہے کھانا سبھی لکڑیوں پر
نہ ٹی-وی ،نہ ہیٹر میرے پاس میں ہے
نہ پنکھانہ کولر میرے پاس میں ہے
لگاتار بل گھر میں ڈالے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
میری زیست پل پل میں بکھری پڑی ہے
جو ہے پاس بی-اے کی ڈگری پڑی ہے
نہ سروس ملے ہے سوا روپئے کے
نہ کوئی چلے ہے ہوا روپئے کے
اب امّید کے سب اجالے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
سلامت رہے اے خدا چھت میری یہ
شکستہ مکاں ہی وراثت میری یہ
اتی کرم والوں نے گھر بار توڑا
یہ پھٹ پات کا سارا بازار توڑا
غریبوں کے منہ سے نوالے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں