ہم ایسےتو نہ تھے
Poet: DrGirl (Sana) By: Sana Chaudhry, Lahoreہم ایسےتو نہ تھے۔
وہ بچپن کہاں گیا کہ جب اسکول جاتے تھے، تو کوئی ڈر نہ ھوتا تھا۔
صبح سویرے ٹی وی پر، تلاوت عام ہوتی تھی۔
یوم آزادی پرچم کےتلے، خوشیوں کی شام ہوتی تھی۔
اک دسترخوان پہ جب رات کو، سب مل بیٹھتے تھے۔
تب اسکول سے آفس کی، ہر اک بات ہوتی تھی۔
،کوئی باہر کرکٹ کھیلنے کو روز لڑتا تھا
کوئی گڑیا کے گھر، چاۓ کی دعوت پہ بلاتا تھا۔
مگر یہ کونسی آندھی چلی ،دنیا میں مغرب سے؟
جو اب اسکول کو جاؤں، تو ماں پیچھے سے ڈرتی ہے۔
کوئی وحشی اٹھا نہ لے، کوئی ظالم یا پھر وائیرس میرے بچے کی جاں نہ لے۔
تلاوت تو نہیں سنتی سویرے ہم کو کانوں میں، مگر مارننگ شوز پر ریٹنگ کی ریس یوں عام ہوتی ہے۔
،کہ جس ریس میں مذہب اور کلچر بھول بیٹھے ہیں
مگر بس یاد ہے وہ جوڑا، کل جو ٹی وی پہ دیکھا تھا ۔
صبح سے شام اسکی آس میں اب دل جلاتے ہیں۔
یوم آزادی نہ جانے کس کی آزادی کا دن ہے، کیا شر آزاد ہوتا ہے؟
مجھے اس ناچ گانے سے، تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔
ان باجوں اور پٹاخوں کی، آوازوں سے جو ڈرتے ہیں۔
ان بوڑھوں سے ذرہ پوچھو، آزادی کے دن وہ اپنے ہی گھر میں قید رہتےہیں۔
کسی کے پاس بھی مل بیٹھ کے، کھانے کا وقت کہاں۔
جو کہیں بیٹھ بھی جائیں، موبائیلوں اور ٹی وی سے نظر انکی نہیں ہٹتی۔
گلی ویران رہتی ہے۔
،تیز رفتار ڈرائیونگ اور ڈرفٹنگ کے مارے ہوۓ
شہر کے ہسپتالوں کو کیے آباد رکھتے ہیں۔
اور گڑیوں کے یہاں دعوت پہ، اب کوئی نہیں جاتا۔
مگر گھر پر ہوئی دعوت کی ہر ایک سیلفی ، سوشل میڈیا پروفائیل کی شان ہوتی ہے۔
،ہم ایسے تو نہ تھے
کہ یہ کیسی تبدیلی ہے؟
،مجھے لگتا ہے جیسے یہ کوئی جین میوٹیشن ہے
ذرہ سا سوچ کر مجھے اسکا جواب سب دینا۔
کیا تم اور میں حقیقت میں اک منقلب ہیں؟
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






