ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
اب غم زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گے
عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے
رات کے بعد سحر ہوگی مگر کس کے لئے
ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے
روشنی کم تھی مگر اتنا اندھیرا تو نہ تھا
شمع امید بھی گل ہو گئی جلتے جلتے
آپ وعدے سے مکر جائیں گے رفتہ رفتہ
ذہن سے بات اتر جاتی ہے ٹلتے ٹلتے
ٹوٹی دیوار کا سایہ بھی بہت ہوتا ہے
پاؤں جل جائیں اگر دھوپ میں چلتے چلتے
دن ابھی باقی ہے اقبالؔ ذرا تیز چلو
کچھ نہ سوجھے گا تمہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے