ہم سفر چھوٹ گئے راہگزر کے ہمراہ
کوئی منظر نہ چلا دیدئہ تر کے ہمراہ
ایسا لگتا ہے کہ پیروں سے لپٹ آئی ہے
ایک زنجیر بھی اسبابِ سفر کے ہمراہ
اتنا مشکل تو نہ تھا میرا پلٹنا لیکن
یاد آ جاتے ہیں رستے بھی تو گھر کے ہمراہ
کس سے تصدیق کروں شہر کی بربادی کی
اب تو قاصد بھی نہیں ہوتے خبر کے ہمراہ
ہم نے جنگل میں بھی پیچھے نہیں مُڑ کر دیکھا
کیا عجب عزم بندھا رختِ سفر کے ہمراہ