ہم پہ کیا کیا ستم نہیں ہو تا
حوصلہ پھر بھی کم نہیں ہوتا
ہو تا ہے یار کے بچھڑ نے کا
کون کہتا ہے غم نہیں ہو تا
ہم شراب_طہور پیئیں گے
کیا وہاں جام و جم نہیں ہوتا
زندگی کٹ ہی جا تی ہے ان کی
جن کا کوئی صنم نہیں ہوتا
ہو گیا پھر کہیں کسی سے بھی
عشق کا تو دھرم نہیں ہوتا
سچ نکل آئے گا کہیں سے بھی
جھوٹ میں کوئی دم نہیں ہوتا
آزمائے طبیب سب ہم نے
درد _ دل ہے کہ کم نہیں ہوتا
غور لہجے پہ کر مجاز اپنے
بات کا زخم کم نہیں ہو تا