ہم کبھی خاص و عام تک جائیں
صبح سے نکلیں تو شام تک جائیں
کس قدر رونقیں تھیں میلے میں
وہ بھی اب اختتام تک جائیں
میری وحشت کو روند کر اک دن
میرے دل کے مقام تک جائیں
ان سے ملنے کی آرزو ہے کہاں
صرف الفت میں کام تک جائیں
یہ تکلف کہاں ضروری ہے
ربط میں احترام تک جائیں
نام لیتا نہیں ہے جن کا کوئی
کیوں وہ میرے ہی نام تک جائیں
ماہ و انجم کو چھو سکیں وشمہ
کاش ہم بھی دوام تک جائیں