مجروح دل کو مرہمِ پارا نہیں ملا
غم کی دوا ملی تھی مسیحا نہیں ملا
محرومیوں کی اوڑھے تھی چادر یہ حسرتیں
بے آبرو ضمیر کو رستہ نہیں ملا
آوارگی کے شوق میں تنہا ہی رہ گئے
پھر عشق کے جنون کو جز بہ نہیں ملا
آسودہ دل تھا پہلے راحت کی زندگی تھی
ہنستا تھا جسکی خاطر وہ چہرہ نہیں ملا
دستک کوئی دیتا میرے سطحِ خیال پر
پر اجنبی کو روح کا رشتہ نہیں ملا
مر جاؤنگا کسی دن اپنی وفا سے کہہ کے
ہمکو تمھارے پیار کا حصہ نہیں ملا
گل پوش وادیوں سے یہ کہہ کر رضا چلا ہے
پیروں میں زخم خار سے گہرا نہیں ملا