کوئی امید ہے کہ لوگ جیے جاتے ہیں
زیست کا زہر بھی ہنس ہنس کے پیے جاتے ہیں
گو وفا راس نہیں سادہ دلوں کو لیکن
ہم ہیں مجبور وفا تجھ سے کیے جاتے ہیں
تیری محفل میں ترستے ہیں سبھی تشنہء لب
جو ہیں مدہوش انھیں جام دیے جاتے ہیں
ہم کہ الفت میں منافع کے طلب گار نہیں
اس کو دل دے کے فقط درد لیے جاتے ہیں
ہم کھلا تے ہیں ہر اک سمت محبت کے کنول
آہ نفرت کے ہمیں خار دیے جاتے ہیں
کس سے ہوتا ہے بھلا چارہ جنوں کا زاہد
کب بھلا چاک گریبان سیے جاتے ہیں