آ بھی گئی وہ گھڑی لوگو
کہ ہر مشکل ہوئی ہے آج مشکل ِ آخر ہماری
ختم ہؤا سفر ِ زندگی یہ آخری ہچکی ہے
صحرا میں چھاگل ِ آخر ہماری
تم جسے کہتے ہو گوشہء قبرستاں
وہ گور غریباں ہے منزل ِ آخر ہماری
کوئی ہمارا ساتھ نہ دے سکا تو کیا ہؤا
ہمارا ہاتھ آ گئی ہے اجل تھامنے
کہ وقت رخصتی ہے ماتم بپا ہے
خلق اشکبار ہے ہماری میت کے سامنے
ہماری نجات کی نوید دی ہے ہم کو
صبح ملال نے ، اس سوگوار شام نے
نہ مہندی لگی نہ ڈھولک بجی
دُلہن ایسے بنی کہ کفن ہم کو پہنا دیا
بارات آ گئی کوئی شاہسوار نہ آیا
ہمیں لینے کو اور جنازہ ہمارا اٹھا دیا
یہ تم نے کیا کیا کہ پہلے پھولوں سے
سجایا ہم کو پھر مٹی تلے دبا دیا
ہم ہیں غریب ِ شہر رعنا
خزاں رسیدہ ایسے کہ شرمندہء بہار نہیں
جہاں سے ہیں بےنیاز ہم
لاحق کوئی ہجر نہیں ہمیں کسی کا انتظار نہیں
ہم سوئیں گے یوں چین سے مزار میں
کہ قیامت تک ہونگے بیدار نہیں