اپنا کچا گھر بھی آخر بے نشاں ہو ہی گیا
جو بھڑکتا تھا کبھی وہ شعلہ دھواں ہو ہی گیا
اس کو صدیوں کے سفر سے مل گئی آخر نجات
آخرش اس پر خدا تو مہرباں ہو ہی گیا
بہرے لوگوں میں اکیلا بولتا وہ کب تلک
کاٹ کر اپنی زباں وہ بے زباں ہو ہی گیا
اس نے آخر توڑ دی اپنی محبت کی قسم
فیصلہ آخر وفا کا بھی یہاں ہو ہی گیا
میں نے کی تھی بس یونہی اک نئے چہرے کی بات
اس ذرا سی بات پر وہ بد گماں ہو ہی گیا
کوئی رستہ تھا نہ منزل دھول تھی حد نظر
عاشی صدیوں کا سفر یوں رائیگاں ہو ہی گیا