ہوئے ھیں شب قتل جو ارماں اپنے
رات تاروں نے بھی رو رو کے گزاری ہے
ضبط رہا ہی نہیں آسماں کو خود پر
چشم گل سے بھی آنسو جاری ہے
صحرا کو تلاش ہے پھر کسی مجنوں کی
محمل میں لیلی کو عجب بیقراری ہے
مزآجء فطرت ہم آہنگ ہے میرےغم سے
بتا رھی فضا کی سوگواری ہے
پھولوں کی قبا جو سرخ ہے اتنی
خون جگر کی یہ آبیاری ہے