ہوا نہ دوست ہوا جو مرا شریک سفر
مرے خلوص کا اس پہ نہیں ہے کوئ اثر
میں اپنا کہہ نہ سکا ساتھ رہنے والوں کو
لگا ہے غیروں کا مسکن مجھے تو اپنا ہی گھر
نصیب مجھ کو تو اپنوں سے بھی ہوا نہ قرار
رہے ہیں باعث رنج و الم یہ شام و سحر
رہوں میں جا کے وہاں پر خلوص لوگوں میں
جہاں سے دور کہیں تو ہو کوئ ایسا نگر
ہیں میرے ماضی کی رسوائیاں جو ساتھ مرے
کہیں تو مجھ سے نہ ہو جائے بدگماں ہے یہ ڈر
مرے ہی ہاتھوں لگایا ہوا ہے اوروں کا
مجھے تو سایہ و پھل دے سکا نہ اپنا شجر
تمام رات کٹی بے قراری میں زاہد
سکوں آیا ہے سن کے مجھے اذان فجر