ہوا کے ساتھ یاری ہو گئی ہے
دیے کی عمر لمبی ہو گئی ہے
فقط زنجیر بدلی جا رہی تھی
میں سمجھا تھا رہائی ہو گئی ہے
بچی ہے جو دھنک اس کا کروں کیا
تری تصویر پوری ہو گئی ہے
ہمارے درمیاں جو اٹھ رہی تھی
وہ اک دیوار پوری ہو گئی ہے
قریب آ تو گیا ہے چاند میرے
مگر ہر چیز دھندلی ہو گئی ہے