تاریکیوں کے راج کو بخشا گیا دوام
رکھے گئے چراغ ہواؤں کی سمت میں
کرنوں کا خون سوزن زنداں سے جب گرا
پروانے اڑ کے آئے جفاؤں کی سمت میں
پھانسا گیا تھا جال میں ظلمت کے نور کو
جگنو بھٹک رہے تھے خطاؤں کی سمت میں
پابندیوں کا قہر تھا خیالوں کی راہ پر
جذبے مچل رہے تھے صداؤں کی سمت میں
ہر گام پر کھڑے تھے واں جلاد بے نیام
پھر بھی قدم اٹھے تھے وفاؤں کی سمت میں
زخموں سے چور چور بدن لے کے عشق میں
عشاق بڑھ رہے تھے اداؤں کی سمت میں
وہ التجائیں سن کے بھی پلٹے نہیں کبھی
اشہر کیوں تک رہے ہو دعاؤں کی سمت میں