بند کمرے میں صدائیں چیختی ہیں
وحشتیں بن کر بلائیں چیختی ہیں
کوئی دیوانہ ہے شاید رقص میں
دور جنگل میں ہوائیں چیختی ہیں
زلف لہرائی ہے کسی نے بام پر
کالی کالی یہ گھٹائیں چیختی ہیں
موسم گل زہر کاری دے گیا
سرخ پھولوں کی قبائیں چیختی ہیں
جو بنائے بے وفائی نے جمال
ان دریچوں سے وفائیں چیختی ہیں