ہوتا نہیں ذوقِ زندگی کم
بنیادِ حیات ہے تیرا غم
احساسِ جمال اُبھر رہا ہے
جب سے تیرا التفات ہے کم
تیرے ہی غموں نے مجھ کو بخشی
کوندے کی لپک، غزال کا رَم
سامانِ ثبات ہیں سفر میں
اُمید کے پیچ، راہ کے خم
زخموں میں چٹک رہی ہیں کلیاں
ہوتی ہے یونہی بساط برہم
شمعوں کی لَویں ہیں یا زبانیں
آنسوُ ہیں کہ احتجاجِ پیہم
انجم سے کھلائے گی شگوفے
شبنم سے لدی ہوُئی شبِ غم
طوفان کا متظر کھڑا ہے
یہ عین سحر کو شب کا عالم