جگر پر میرے اک دھات چلتی ہے
بدل کر کایا کئی ہاتھ چلتی ہے
مصیبت یہ فقیروں پہ کچھ کم نہ سمجھو
دن گزر بھی جائے تو مشکل رات چلتی ہے
ہوتا ہے چمن مے سوز بیناں پیدا نیا
جب شگاف دل مے آرزو کی بات چلتی ہے
کھنگالا ہے ہم نے محبت کا اصل دفتر
کہیں پرکام ہے پیشہ کہیں پر ذات چلتی ہے
تاثیر پا لی ہے اسیروں نے آسماں کی
دیر تک آج کل ستاروں سے ملاقات چلتی ہے