ہونٹ خاموش ہیں کہنے کو رہا کچھ بھی نہیں
خط تو لکھا ہے مگر اس میں لکھا کچھ بھی نہیں
عشق میں پہلے ہی سب کچھ میں لٹا بیٹھی ہوں
اب مرے پاس میں لٹنے کو بچا کچھ بھی نہیں
غم ملے درد ملا اور ملی رسوائی
عشق میں ا سکے سوا مجھکو ملا کچھ بھی نہیں
ایک میں ہوں جو جلا بیٹھی ہوں اپنی دنیا
ایک تم ہو جو یہ کہتے ہو جلا کچھ بھی نہیں
بس یہی کہہ کے سنا دی مرے منصف نے سزا
ہے یہی تیری خطا تیری خطا کچھ بھی نہیں
تم کو پھولوں کی تمنا ہے تو جاؤ اے صنم
میرے گلشن میں تو کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں
درد غزلوں میں بیاں کرتی ہوں اپنا" وشمہ"
یار لکھنے کو مرے پاس نیا کچھ بھی نہیں