ہونٹوں پر ہنسی دیکھ لی پر دل کے اندر نہیں دیکھا
میرے اپنوں نے میرے اندر غم کا سمندر نہیں دیکھا
کتنی خوبصورت خوش او حَسین ہے دنیا دیکھا
اپنے مر مر کے جانے والوں کا منظر نہیں دیکھا
شیشے کا مکان تم نے بنا تو لیا اے دوست
لیکن وقت کے ہاتھوں کا پتھر نہیں دیکھا
راستوں کے ٹوٹنے کا درد آپ کیا سمجھے
وہ لمحہ کبھی آپ نے جی کر نہیں دیکھا
بھٹکتی روشنی کی تلاش میں نہ جانے کیا کیا
افسوس ہے مجھے کہ اپنی روح کے اندر نہیں دیکھا