ہیرے تراشتے ہیں جو کاغذ کی دھار سے
جینا ہے اُن کا شان سے, مرنا وقار سے
آئے خزاں یا جائے ہمیں اِس کا غم نہیں
ہم تو ہرے بھرے رہے زخمِ بہار سے
بے اختیار ہونے کا شکوہ نہیں مگر
کچھ اِختیار بھی مِلے بے اِختیار سے
اَے چاند تُو کہاں ہے ذرا آ کے دیکھ تو
تَارے میں دیکھتا ہوں یہاں تار تار سے
کب لَوٹ کر ہواؤں نے آنے دیا اُسے
مشتاق جو نکل گیا اپنے مدار سے