ہیں غمِ زندگی جو بھلا تے چلو
دست الفت ابھی تم بڑھاتے چلو
ہیں معارف سبھی یار تیرے ہی سب
گیت غزلیں خوشی سے یہ گاتے چلو
اب تو معتوب تیرا نہیں ہے کوئی
وقت کے ساتھ تم مسکراتے چلو
نہب ہوگی نہیں کم کبھی تیری پھر
آئیں پتھر جو راہ میں اٹھاتے چلو
ہوگی وقعت زمانے میں تم دیکھنا
ہاتھ اپنے خوشی سے ہلاتے چلو
تم دو میلان الفت بڑھے گی تبھی
پھول زلفوں میں سجنا سجاتے چلو
کرنا موقن پڑے گا اسے دوستو
جو لگے زخم ہیں وہ دکھاتے چلو
ختم شہزاد اب دشمنی تم کرو
ظلم تم اس جہاں سے مٹاتے چلو