ہیں وعدے بہت پر نبھانے نہیں آتے
Poet: محمد نوید By: Muhammad Naveed, Islamabadہیں وعدے بہت پر نبھانے نہیں آتے
سکے بھی وفاؤں کے چلانے نہیں آتے
ہم نے تو کر دی حوالے نگری دل کی
کہ تمہیں تو بسانے آشیانے نہیں آتے
تم نے روند ڈالی پیار کی پختہ دیواریں
ہمیں مٹی کے گھروندے بھی گرانے نہیں آتے
بتاؤ خود کیوں آوارہ مارے مارے پھرتے ہو
تم تو کہتے تھے اب مجنو دیوانے نہیں آتے
جو گنوا بیٹھے ہو نوید تو ذرا تھم کے بیٹھو
اتنی جلدی پلٹ کر وہ زمانے نہیں آتے
More Sad Poetry






