ہیں وعدے بہت پر نبھانے نہیں آتے
سکے بھی وفاؤں کے چلانے نہیں آتے
ہم نے تو کر دی حوالے نگری دل کی
کہ تمہیں تو بسانے آشیانے نہیں آتے
تم نے روند ڈالی پیار کی پختہ دیواریں
ہمیں مٹی کے گھروندے بھی گرانے نہیں آتے
بتاؤ خود کیوں آوارہ مارے مارے پھرتے ہو
تم تو کہتے تھے اب مجنو دیوانے نہیں آتے
جو گنوا بیٹھے ہو نوید تو ذرا تھم کے بیٹھو
اتنی جلدی پلٹ کر وہ زمانے نہیں آتے