ہے آنکھ افشاں جدائی کے رنج میں
گریہ ہے لطف و آساں جدائی کے رنج میں
تازہ فغاں ملی ہے اک اہلِ چمن کو بھی
بدلا ہے سب گلستاں جدائی کے رنج میں
ہر پل شبِ فراق ترا ہی گمان ہے
ہم خود سے ہیں گریزاں جدائی کے رنج میں
تم کو بھی صبح ہوئی تھی محبت توآج شب
تم کیوں نہیں ہو جاناں جدائی کے رنج میں
'سردار' اشک دیکھ فقط ایک شام کے
برسوں کا جیسے ساماں جدائی کے رنج میں